آج کی سب سے بڑی خبر تو یہ ہے کہ علیمہ خان پرآج اڈیالہ جیل
کے باہرپریس کانفرنس کے دوران انڈامارا گیا لیکن اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ عمران خان
کا اڈیالہ جیل سے پیغام آیا ہے جس نے دشمنوں کی صفوں میں مزید آگ لگا دی ہے بہت
سارے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ عمران خان معافی مانگ لے گاان کو آفر دی گئی کہ آپ پیچھے
ہٹ جائیں یا آپ معافی مانگ لیں لیکن وہ مرد کا بچہ ڈٹا رہا اور اس نے انکارکردیا
پھر ان سے مطالبہ کیا گیا کہ آپ اپنی بیوی
بشری ٰ بی بی کو طلاق دے دیں وہ بھی نہیں ہوا تو عمران خان کے بھانجوں کو اٹھا لیا
گیا جب اس سے بھی دل نہیں بھرا تو اس فسطائی حکومت اورمقتدر حلقوں نے مل کر ایک
اورشرمناک اورگھٹیا حرکت کرڈالی اور علیمہ خان پر دو عورتوں کے ذریعے انڈے سے حملہ
کروا دیا ۔
آج کا یہ حملہ مکمل طور پر پلانٹڈ حملہ تھا باقاعدہ طور پہ پولیس کی تحویل میں گاڑی میں بٹھا کر ان خواتین کو لایا گیا تھا۔علیمہ خان پر ان سے انڈے
پھنکوائے گئے اور پھر پولیس ان کو واپس اپنی گاڑی میں وہاں سے ریسکیو کرکے لے گئی۔
اب ان خواتین کا پتہ بھی چل گیاہے اور ان
کو جس گاڑی میں ریسکیو کیا گیا اور کے مالک کا بھی معلوم ہوچکا ہے۔
آج کا یہ واقعہ بہت
افسوسناک اورشرمناک ہے۔صرف ایک شخص عمران خان اور اس کے خاندان کے اوپر اس حکومت
اور مقتدرحلقوں نے جو ظلم کیا ہے اس پر جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔لاکھ کوشش کے
باوجود یہ حکومت اس خاندان کے کسی فرد کو
بھی نہ توڑ پائی ہے اور ان کے جذبے کو ٹھنڈا کرپائی ہے۔
آج کا واقعہ ہی دیکھ لیں جب ان خواتین نے علیمہ خان پر حملہ
کیا تو انہوں نہا یت تحمل سے برداشت کیا اورکارکنوں کو بھی پرامن رہنے کا کہا ۔انہوں
نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ بے فکر ہو جائیں میری کوئی بے عزتی نہیں ہوئی انہوں نے
کہا ہم عمران خان کا پیغام پہنچاتے رہیں گے یہ جو مرضی کر لیں یعنی انہیں مسئلہ یہ
ہے کہ عمران خان کا میسج باہر نہ آئے۔لیکن
گھٹیا اورشاطردشمن دیکھتا رہ گیا اوربےعزت کرنے والے خود بےعزت اوربے وقارہوگئے
۔ان کی اخلاقیات کا جنازہ تو پہلے ہی نکلا ہوا تھا رہی سہی بے شرمی ،گھٹیاپن کی
کمی آج پوری ہوگئی۔
اب ریسکیو کرکے ان گھٹیا عورتوں کو لے جانے والی پولیس کا موقف بھی آگیا ہے جوکہ بڑا حیران کن ہے۔ راولپنڈی پولیس
کا بیان ہے پریس کانفرنس کے دوران علیمہ خان پر انڈا پھینکنےوالی خواتین کا تعلق پی
ٹی ائی سے ہےاور یہ کے پی کےآل گورنمنٹ ایمپلیز الائنس اور آل پاکستان کلرک ایسوسی
ایشن سے منسلک ہیں جن کے افراد اپنے
مطالبات کے سلسلے میں احتجاج کرنےکے لیے آج اڈیالہ جیل آئے تھے۔پولیس کے مطابق ان
خواتین نےاپنے سوالات پر علیمہ خان کی جانب سے جواب نہ ملنے پر انڈا پھینکا۔
لیکن یہا ں سوال یہ پیدا ہوتا ہے پولیس کو اس واقعہ کا پہلے
سے علم تھا تبھی تو انہوں نے واقعہ رونما ہوتے ہی واقعے میں ملوث خواتین کو اپنی
تحویل میں لے لیا ہے ۔دوسرا ان خواتین میں سے کسی نے بھی علیمہ خان سے کوئی سوال
نہیں کیا۔تیسرا سب کو معلوم ہے کہ علیمہ خان اور علی امین گنڈا پورکے درمیان سب
اچھا نہیں اور علیمہ خان کاکے پی کے حکومت کوئی عمل دخل نہیں ہے۔یہ کارروائی صریحاً بے
عزتی کرنے کا پروگرام تھا جس کو پولیس نے بخوبی سرانجام دیا ۔پولیس نے باقاعدہ طور
پر سہولت کاری کی اورفورًا ریسکیو کیا تاکہ ان کو پکڑا نہ جاسکے اور اس حکومت کے
گھٹیاگردی آشکارنہ ہوسکےلیکن افسوس یہ جتنا بھی جھوٹ کو چھپاتے ہیں اتنے ہی
ایکسپوز ہوجاتے ہیں۔
گاڑی کا نمبر بی جی ایس 6008 ہے اور گاڑی کا مالک ہے اڈیالہ
جیل کا راولپنڈی کا ایک رہائشی ہے اور وہ کوئی بڑا آدمی نہیں ہے وہ ایک نارمل آدمی
ہےاس گھٹیا حرکت کے لیے اس شخص کی گاڑی کو استعمال کیا گیا اور کچھ لوگ کا یہ خیال
ہےکہ یہ گاڑی کا اصل مالک نہیں ہے بلکہ اس
کے پیچھے کوئی مالک ہے۔اس گاڑی کے نمبر پلیٹ کو بدلا گیا ہے۔اورظاہری سی بات ہے جو
یہ کام کروا رہے ہیں ان کے لیے یہ کوئی مشکل کام تو ہے نہیں۔ان کا مقصد علیمہ خان
کی تزہیق کرنا جو انہوں نے کرڈالی لیکن وہ ڈٹی رہیں جس پر مکاردشمن اپنے مقصد میں
فیل ہوگیا۔
تحریک انصاف کی طرف سے بھی اس گھٹیا واقعہ کی پرزورمذمت کی
گئی ہے۔پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا ہے ان گھٹیا اقدامات میں جو ملوث ہےان کے خلاف فوری
طور پر کاروائی ہونی چاہیے۔ کاروائی تو کوئی نہیں ہوگی ظاہر ہےان کو پرووٹوکول کے ساتھ انڈے دے کے لایا گیا تھا اب بھلا کیسے ممکن ہے کہ ان کے خلاف
کارروائی ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں